ہنگامہ نشاطِ طبیعت بھی جبر ہے

ہنگامہ نشاطِ طبیعت بھی جبر ہے
شاید کہ اختیار کی حالت بھی جبر ہے
ہے جبر و التفات و عنایت کی آرزو
اور نازِ التفات و عنایت بھی جبر ہے
شکوہ خدا غریب سے ہے تم کو ہے،جاؤ بھی
اس کے لیے تو اس کی مشیّت بھی جبر ہے
آشفتگاں کو کون بتائے کہ دوستاں
آشوب ہاؤ ہو کی یہ فرصت بھی جبر ہے
وہ جو تھا اپنا شوقِ فزوں جبر ہی تو تھا
یہ اپنا طرزِ حسنِ مروّت بھی جبر ہے
آسایشِ بقا کی ہَوسَ جبر تھی،سو تھی
ہر لمحہ خود کشی کی سہولت بھی جبر ہے
ہم سے ہماری جنبشِ لب کا حساب کیا
ہے شکر جبر اور شکایت بھی جبر ہے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *