زمین کے آخری کنارے کا المیہ گیت

زمین کے آخری کنارے کا المیہ گیت
میں نے بے پناہ محبت کی
پھر نفرت بھی اتنی ہی کی
نیکی کی اور دریا کے دریا بھر دئیے
اور پھر خالی بھی کئے
ایک عمر بتائی کہ خود اپنے سائے پر بھی کبھی پاؤں نہ پڑنے دیا
اور پھر ایک عمر پھولوں اور تصویروں کو روندتے ہوئے بِتا دی
جانے انجانے راستوں پر چلا
بہت زیادہ چلا
اور پھر ہار گیا، ہارتا چلا گیا
یہاں تک کہ کچھ بھی باقی نہ رہا
نہ میں نہ کچھ اور
دنیا میں جتنے بھی محبت کرنے والے آئے
اور انتہا کو پہنچے
یا وہ جنہوں نے نفرتوں کی کوئی بھی منزل باقی نہ رہنے دی
سب کیا ہوئے؟ کہاں گئے وہ سب کے سب؟
کتنی اداس شام ہے
بادلوں میں گھری اور خاموشی میں ڈوبی
ہوا بھی بند ہو چکی ہے ۔آؤ
کچھ دُور تک تو میرے ساتھ چلو
پھر بھلے واپس لوٹ آنا
اور میں آگے چلا جاؤں گا
جہاں تک جا سکا
دراصل مجھے زمین کے آخری کنارے پر ایک المیہ گیت لکھنا ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *