لَوحِ مسافت

لَوحِ مسافت
تھکا ہوا ہوں میں، اس کنارے سے اِس کنارے تلک
بہت ہی تھکا ہوا ہوں
طرف طرف روشنی کی بینائی کی مسافت ہے اور تھکن ہے
تھکن مسافت کا نشّہ ہے اور میں نشے میں چھلک رہا ہوں
خلاؤں میں روشنی میں بینائی اپنی پلکوں پہ رو رہی ہے
اب اس کی آنکھوں میں دھند ہے اور دھند چشمہ لگا رہی ہے
اور اپنا اندازہ کھو رہی ہے
تھکا ہوا ہوں میں، اُس کنارے سے اِس کنارے تلک
بہت ہی تھکا ہوا ہوں
مسافتوں کا حساب جانچا گیا تو ذرّے کے ایک ریزے نے
مجھ سے جو کچھ کہا وہ آپس کی بات ہے
جو کسی نے کہنی نہیں ہے مجھ کو
مسافتوں کا حساب ریزے کا اپنا ذات معاملہ ہے
وجود کی رات کہکشانوں سے کہکشانوں تلک بچھی ہے
میں وقت کی گرد کا نوشتہ ہوں
وہ نوشتہ جو گرد کی گرد باد ہی پر لکھا گیا ہے
میں وہ نوشتہ ہوں جو یہاں گم شدہ نگاہوں کی دھند ہی میں پڑھا گیا ہے
جون ایلیا
(راموز)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *