میر تقی میر
موسم ہے نکلے شاخوں سے پتے ہرے ہرے
موسم ہے نکلے شاخوں سے پتے ہرے ہرے پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز وہ…
منھ پر اس آفتاب کے ہے یہ نقاب کیا
منھ پر اس آفتاب کے ہے یہ نقاب کیا پردہ رہا ہے کون سا ہم سے حجاب کیا اے ابر تر یہ گریہ ہمارا ہے…
معلوم نہیں کیا ہے لب سرخ بتاں میں
معلوم نہیں کیا ہے لب سرخ بتاں میں اس آتش خاموش کا ہے شور جہاں میں یوسفؑ کے تئیں دیکھ نہ کیوں بند ہوں بازار…
مرے رنگ شکستہ پہ ہنسے ہیں مردماں سارے
مرے رنگ شکستہ پہ ہنسے ہیں مردماں سارے ہوا ہوں زعفراں کا کھیت تیرے عشق میں پیارے عرق گرتا ہے تیری زلف سے اور دل…
مذہب سے میرے کیا تجھے میرا دیار اور
مذہب سے میرے کیا تجھے میرا دیار اور میں اور یار اور مرا کاروبار اور چلتا ہے کام مرگ کا خوب اس کے دور میں…
محبت کا جب روز بازار ہو گا
محبت کا جب روز بازار ہو گا بکیں گے سر اور کم خریدار ہو گا تسلی ہوا صبر سے کچھ میں تجھ بن کبھی یہ…
مت مال کسی کا یار تل کر رکھنا
مت مال کسی کا یار تل کر رکھنا تو داؤ نہ یاں بہت سا جل کر رکھنا آیا تو قمارخانۂ عشق میں تو سربازی ہے…
لیے داغ سر پر جو آئی تھی شمع
لیے داغ سر پر جو آئی تھی شمع سحر تک سب ان نے ہی کھائی تھی شمع پتنگے کے حق میں تو بہتر ہوئی اگر…
لخت جگر تو اپنے یک لخت رو چکا تھا
لخت جگر تو اپنے یک لخت رو چکا تھا اشک فقط کا جھمکا آنکھوں سے لگ رہا تھا دامن میں آج دیکھا پھر لخت میں…
گیسو سے اس کے میں نے کیوں آنکھ جا لگائی
گیسو سے اس کے میں نے کیوں آنکھ جا لگائی جو اپنے اچھے جی کو ایسی بلا لگائی تھا دل جو پکا پھوڑا بسیاری الم…
گل و بلبل بہار میں دیکھا
گل و بلبل بہار میں دیکھا ایک تجھ کو ہزار میں دیکھا جل گیا دل سفید ہیں آنکھیں یہ تو کچھ انتظار میں دیکھا جیسا…
گرمی سے میں تو آتش غم کی پگھل گیا
گرمی سے میں تو آتش غم کی پگھل گیا راتوں کو روتے روتے ہی جوں شمع گل گیا ہم خستہ دل ہیں تجھ سے بھی…
گر ناز سے وہ سر پر لے تیغ آ نہ پہنچے
گر ناز سے وہ سر پر لے تیغ آ نہ پہنچے منزل کو عاشق اپنے مقصد کی جا نہ پہنچے جیتے رہیں گے کیونکر ہم…
کیونکر مجھ کو نامہ نمط ہر حرف پہ پیچ و تاب نہ ہو
کیونکر مجھ کو نامہ نمط ہر حرف پہ پیچ و تاب نہ ہو سو سو قاصد جان سے جاویں یک کو ادھر سے جواب نہ…
کیا ہم میں رہا گردش افلاک سے اب تک
کیا ہم میں رہا گردش افلاک سے اب تک پھرتے ہیں کمھاروں کے پڑے چاک سے اب تک تھے نوخطوں کی خاک سے اجزا جو…
کیا کیا ہم نے رنج اٹھائے کیا کیا ہم بھی شکیبا تھے
کیا کیا ہم نے رنج اٹھائے کیا کیا ہم بھی شکیبا تھے دو دن جوں توں جیتے رہے سو مرنے ہی کے مہیا تھے عشق…
کیا کہیے کلی سا وہ دہن ہے
کیا کہیے کلی سا وہ دہن ہے اس میں بھی جو سوچیے سخن ہے اس گل کو لگے ہے شاخ گل کب یہ شاخچہ بندی…
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق جان کا روگ ہے بلا ہے عشق عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو سارے عالم میں…
کیا عشق بے محابا ستھراؤ کر رہا ہے
کیا عشق بے محابا ستھراؤ کر رہا ہے میداں بزن گہوں کے کشتوں سے بھر رہا ہے غیرت سے دلبری کی ڈر چاندنی نہ دیکھی…
کیا چہرے خدا نے دیے ان خوش پسروں کو
کیا چہرے خدا نے دیے ان خوش پسروں کو دینا تھا تنک رحم بھی بیداد گروں کو آنکھوں سے ہوئی خانہ خرابی دل اے کاش…
کوئی دن کریے معیشت جاکسو کامل کے پاس
کوئی دن کریے معیشت جاکسو کامل کے پاس ناقصوں میں رہیے کیا رہیے تو صاحب دل کے پاس بوئے خوں بھک بھک دماغوں میں چلی…
کہیو قاصد جو وہ پوچھے ہمیں کیا کرتے ہیں
کہیو قاصد جو وہ پوچھے ہمیں کیا کرتے ہیں جان و ایمان و محبت کو دعا کرتے ہیں عشق آتش بھی جو دیوے تو نہ…
کہتے ہیں اڑ بھی گئے جل کے پر پروانہ
کہتے ہیں اڑ بھی گئے جل کے پر پروانہ کچھ سنی سوختگاں تم خبر پروانہ سعی اتنی یہ ضروری ہے اٹھے بزم سلگ اے جگر…
کہا سنتے تو کاہے کو کسو سے دل لگاتے تم
کہا سنتے تو کاہے کو کسو سے دل لگاتے تم نہ جاتے اس طرف تو ہاتھ سے اپنے نہ جاتے تم شکیبائی کہاں جو اب…
خندہ بجائے گریہ و اندوہ و آہ کر
خندہ بجائے گریہ و اندوہ و آہ کر ماتم کدے کو دہر کے تو عیش گاہ کر کیا دیکھتا ہے ہر گھڑی اپنی ہی سج…
کس کی مسجد کیسے میخانے کہاں کے شیخ و شاب
کس کی مسجد کیسے میخانے کہاں کے شیخ و شاب ایک گردش میں تری چشم سیہ کے سب خراب تو کہاں اس کی کمر کیدھر…
کرو تم یاد گر ہم کو رہے تم میں بھی اکثر دل
کرو تم یاد گر ہم کو رہے تم میں بھی اکثر دل مثل مشہور ہے یہ تو کہ ہے دنیا میں دلبر دل بھلا تم…
کر نہ تاخیر تو اک شب کی ملاقات کے بیچ
کر نہ تاخیر تو اک شب کی ملاقات کے بیچ دن نہ پھر جائیں گے عشاق کے اک رات کے بیچ حرف زن مت ہو…
کچھ اندیشہ ہم کو نہیں ہے اپنے حال درہم کا
کچھ اندیشہ ہم کو نہیں ہے اپنے حال درہم کا آٹھ پہر رہتا ہے رونا اس کی دوری کے غم کا روتے کڑھتے خاک میں…
کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا
کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا ایک دن یوں ہی جی سے جایئے گا شکل تصویر بے خودی کب تک کسو دن آپ میں بھی…
کاشکے دل دو تو ہوتے عشق میں
کاشکے دل دو تو ہوتے عشق میں ایک رہتا ایک کھوتے عشق میں پاس ظاہر ٹک نہ کرتے شب تو ہم بھر رہے تھے خوب…
فلک کرنے کے قابل آسماں ہے
فلک کرنے کے قابل آسماں ہے کہ یہ پیرانہ سر جاہل جواں ہے گئے ان قافلوں سے بھی اٹھی گرد ہماری خاک کیا جانیں کہاں…
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا دل کے جانے کا نہایت غم رہا حسن تھا تیرا بہت عالم فریب خط کے آنے…
عمر گذری کہ ترے کوچے کے آنے سے گئے
عمر گذری کہ ترے کوچے کے آنے سے گئے دور سے ایک نظر دیکھ کے جانے سے گئے
عشق میں ذلت ہوئی خفت ہوئی تہمت ہوئی
عشق میں ذلت ہوئی خفت ہوئی تہمت ہوئی آخر آخر جان دی یاروں نے یہ صحبت ہوئی عکس اس بے دید کا تو متصل پڑتا…
عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفع
عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفع کڑھیے کب تک نہ ہو بلا سے نفع کب تلک ان بتوں سے چشم رہے ہو رہے گا…
عزت اپنی اب نہیں ہے یار کو منظور ٹک
عزت اپنی اب نہیں ہے یار کو منظور ٹک پاس جاتا ہوں تو کہتا ہے کہ بیٹھو دور ٹک حال میرا شہر میں کہتے رہیں…
ظلم ہوئے ہیں کیا کیا ہم پر صبر کیا ہے کیا کیا ہم
ظلم ہوئے ہیں کیا کیا ہم پر صبر کیا ہے کیا کیا ہم آن لگے ہیں گور کنارے اس کی گلی میں جا جا ہم…
طائر فریب کتنا ہے وہ شکار پیشہ
طائر فریب کتنا ہے وہ شکار پیشہ مرغان باغ سارے گویا ہیں اس کے مارے
صحبت کسو سے رکھنے کا اس کو نہ تھا دماغ
صحبت کسو سے رکھنے کا اس کو نہ تھا دماغ تھا میرؔ بے دماغ کو بھی کیا بلا دماغ باتیں کرے برشتگی دل کی پر…
شیخی کا اب کمال ہے کچھ اور
شیخی کا اب کمال ہے کچھ اور حال ہے اور قال ہے کچھ اور وعدے برسوں کے کن نے دیکھے ہیں دم میں عاشق کا…
شش جہت سے اس میں ظالم بوئے خوں کی راہ ہے
شش جہت سے اس میں ظالم بوئے خوں کی راہ ہے تیرا کوچہ ہم سے تو کہہ کس کی بسمل گاہ ہے ایک نبھنے کا…
شاید جگر حرارت عشقی سے جل گیا
شاید جگر حرارت عشقی سے جل گیا کل درد دل کہا سو مرا منھ ابل گیا بے یار حیف باغ میں دل ٹک بہل گیا…
سوزش دل سے مفت گلتے ہیں
سوزش دل سے مفت گلتے ہیں داغ جیسے چراغ جلتے ہیں اس طرح دل گیا کہ اب تک ہم بیٹھے روتے ہیں ہاتھ ملتے ہیں…
سن گوش دل سے اب تو سمجھ بے خبر کہیں
سن گوش دل سے اب تو سمجھ بے خبر کہیں مذکور ہو چکا ہے مرا حال ہر کہیں اب فائدہ سراغ سے بلبل کے باغباں…
سر تو بہت بکھیرا پر فائدہ کیا نہ
سر تو بہت بکھیرا پر فائدہ کیا نہ الجھاؤ تھا جو اس کی زلفوں سے سو گیا نہ وے زلفیں عقدہ عقدہ ہیں آفت زمانہ…
سب آتش سو زندۂ دل سے ہے جگر آب
سب آتش سو زندۂ دل سے ہے جگر آب بے صرفہ کرے صرف نہ کیوں دیدۂ تر آب پھرتی ہے اڑی خاک بھی مشتاق کسو…
زرد ہیں چہرے سوکھ گئے ہیں یعنی ہیں بیمار بہت
زرد ہیں چہرے سوکھ گئے ہیں یعنی ہیں بیمار بہت عشق کی گرمی دل کو پہنچی کہتے ہی آزار بہت نالہ و زاری سے عاشق…
رو چکا خون جگر سب اب جگر میں خوں کہاں
رو چکا خون جگر سب اب جگر میں خوں کہاں غم سے پانی ہوکے کب کا بہہ گیا میں ہوں کہاں دست و دامن جیب…