صحبت کسو سے رکھنے کا اس کو نہ تھا دماغ

صحبت کسو سے رکھنے کا اس کو نہ تھا دماغ
تھا میرؔ بے دماغ کو بھی کیا بلا دماغ
باتیں کرے برشتگی دل کی پر کہاں
کرتا ہے اس دماغ جلے کا وفا دماغ
دو حرف زیر لب کہے پھر ہو گیا خموش
یعنی کہ بات کرنے کا کس کو رہا دماغ
کر فکر اپنی طاقت فکری جو ہو ضعیف
اب شعر و شاعری کی طرف کب لگا دماغ
آتش زبانی شمع نمط میرؔ کی بہت
اب چاہیے معاف رکھیں جل گیا دماغ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *