لیے داغ سر پر جو آئی تھی شمع

لیے داغ سر پر جو آئی تھی شمع
سحر تک سب ان نے ہی کھائی تھی شمع
پتنگے کے حق میں تو بہتر ہوئی
اگر موم کی بھی بنائی تھی شمع
نہ اس مہ سے روشن تھی شب بزم میں
نکالا تھا اس کو چھپائی تھی شمع
وہی ساتھ تھا میرے شب گیر میں
کہ تاب اس کے رخ کی نہ لائی تھی شمع
پتنگ اور وہ کیوں نہ باہم جلیں
کہیں سے مگر اک لگ آئی تھی شمع
فروغ اس کے چہرے کا تھا پردہ در
ہوا کیا جو ہم نے بجھائی تھی شمع
تف دل سے میرؔ اک کف خاک ہے
مری خاک پر کیوں جلائی تھی شمع
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *