کیا ہم میں رہا گردش افلاک سے اب تک

کیا ہم میں رہا گردش افلاک سے اب تک
پھرتے ہیں کمھاروں کے پڑے چاک سے اب تک
تھے نوخطوں کی خاک سے اجزا جو برابر
ہو سبزہ نکلتے ہیں تہ خاک سے اب تک
تا ند نظر چھا رہے ہیں لالۂ صد برگ
جنگل بھرے ہیں سب گل تریاک سے اب تک
دشمن ہوئی ہے جس کے لیے ساری خدائی
مربوط ہیں ہم اس بت بیباک سے اب تک
ہر چند کہ دامن تئیں ہے چاک گریباں
ہم ہیں متوقع کف چالاک سے اب تک
گو خاک سی اڑتی ہے مرے منھ پہ جنوں میں
ٹپکے ہے لہو دیدۂ نمناک سے اب تک
وے کپڑے تو بدلے ہوئے میرؔ اس کو کئی دن
تن پر ہے شکن تنگی پوشاک سے اب تک
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *