سلسلہ جُنباں اک تنہا سے روح کسی تنہا کی تھی

سلسلہ جُنباں اک تنہا سے روح کسی تنہا کی تھی
ایک آواز ابھی آئی تھی، وہ آواز ہَوا کی تھی
بے دنیائی نے اس دل کی اور بھی دنیا دار کیا
دل پر ایسی ٹوٹی دنیا، ترک ذرا دنیا کی تھی
میری رنگ تمنائی بھی فصلوں میرے کام آئی
میرے گماں کی خوشبو اس کی رنگت کو پہنا کی تھی
اپنے اندر ہنستا ہوں میں اور بہت شرماتا ہوں
خون بھی تھوکا، سچ مچ تھوکا اور یہ سب چالاکی تھی
اپنے آپ سے جب میں گیا ہوں، تب کی روایت سنتا ہوں
آ کر کتنے دن تک اس کی یاد مجھے پوچھا کی تھی
ہوں سودائی سودائی سا جب سے میں نے جانا ہے
طے وہ راہِ سر سودائی میں نے بے سودا کی تھی
گرد تھی بے گانہ گردی کی جو تھی نگہ میری، تاہم
جب بھی کوئی صورت بچھڑی، آنکھوں میں نمناکی تھی
ہے یہ قصہ کتنا اچھا، پر میں اچھا سمجھوں تو
ایک تھا کوئی جس نے یک دَم یہ دُنیا پیدا کی تھی
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *