خواب‘ وہ زندگی سے پیارا تھا
میں نے دیکھے تھے خواب میں آنسو
یہ بھی شاید کوئی اشارہ تھا
جو ابھی آسماں سے ٹوٹا ہے
وہ مرے بخت کا ستارہ تھا
تم مجھے غیر ہی سمجھ لیتے
یہ ستم بھی مجھے گوارہ تھا
اک قدم بھی بڑھا نہیں کوئی
میں نے کس آس سے پکارا تھا
ڈر رہا تھا جو بھیڑ سے عاطفؔ
اس کو تنہائیوں نے مارا تھا