عروس صبح سے آفاق ہمکنار سہی

عروس صبح سے آفاق ہمکنار سہی
شکستِ سلسلئہ قیدِ انتظار سہی
نگاہِ مہرِ جہاں تاب کیوں ہے شرمندہ
شفق کا رنگ شہیدوں کی یادگار سہی
بکھرتے خواب کی کڑیوں کو آپ چُن دیجیے
کیا تھا عہد جو ہم نے وہ پائیدار سہی
ہجومِ لالہ و ریحاں سے داد چاہتے ہیں
یہ چاک چاک گریباں گلے کا ہار سہی
گنے جو زخم رِگ جاں، شریک جشن حیات
پیے جو ساغرِ زہراب بادہ خوار سہی
چمن میں رنگِ طرب کی کوئی کمی نہ رہے
ہمارا خونِ جگر غازئہ بہار سہی
تھکن سے چور ہیں پائوں، کہاں کہاں بھٹکیں
ہر ایک گام نیا حسنِ رہ گزار سہی
سکوں بدوش کنارا بھی اب اُبھر آئے
سفینہ ہائے دل و جاں بھنور کے پار سہی
شکیب جلالی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *