رات بھر کوئی نہ دروازہ کھلا

رات بھر کوئی نہ دروازہ کھلا
دستکیں دیتی رہی پاگل ہوا
وقت بھی پہچان سے منکر رہا
دھند میں لپٹا رہا یہ آئینہ
کوئی بھی خواہش نہ پوری ہو سکی
راستے میں لٹ گیا یہ قافلہ
وہ پرندہ ہوں جسے ہوتے ہی شام
بھول جائے اپنے گھر کا راستہ
ہمسفر سب اجنبی ہوتے گئے
جیسے جیسے راستہ کٹتا گیا
ہم کنارے آ لگے تھک کر نوید
اور دریا عمر بھر چلتا رہا
اقبال نوید
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *