دل ہے تو اسے ورثہِ خاشاک بہت ہے

دل ہے تو اسے ورثہِ خاشاک بہت ہے
صحرا کو تری پیاس کی پوشاک بہت ہے
اغراض کی تسکین میں بے باک بہت ہے
جنگل ہی نہیں شہر بھی سفّاک بہت ہے
اک دل کا کنارا کہ پڑا بوند کو ترسے
اک آنکھ کا دامان کہ نمناک بہت ہے
یا کوئی پرکھتا نہیں میزانِ وفا پہ
یا ہم کو تری ذات کا ادراک بہت ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *