اب کے پھولوں نے کڑی خود کو سزا دی ہو گی

اب کے پھولوں نے کڑی خود کو سزا دی ہو گی
راہ گلشن کی خزائوں کو دکھا دی ہو گی
جب وہ آیا تو کوئی در، کوئی کھڑکی نہ کھلی
اس نے آنے میں بہت دیر لگا دی ہو گی
جا! تیری پلکوں پہ برسات کا موسم ٹھہرے
بادلوں نے مری آنکھوں کو دعا دی ہو گی
رات جو چاند کو چپکے سے بتائی میں نے
بات وہ سب کو ہوائوں نے بتا دی ہو گی
رنگ جو آنکھوں میںجھلکا ہے، اسی کا ہو گا
گلِ لالہ نے جگر کو جو قبا دی ہو گی
دوش اپنا بھی ہے کچھ بات بگڑ جانے میں
اور لوگوں نے بھی کچھ اس کوہوا دی ہو گی
شوخ انداز، چل مست صبا کو دے کر
ہم نے کلیوں کو سمٹنے کی ادا دی ہو گی
وہ بتول آئے گا ملنے کو، ملی جب سے خبر
کہکشاں زخموں کی رستے میں سجا دی ہو گی
فاخرہ بتول
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *