جب بھی کسی شجر سے ثمر ٹوٹ کر گرا

جب بھی کسی شجر سے ثمر ٹوٹ کر گرا
لوگوں کا اک ہجوم ادھر ٹوٹ کر گرا
ایسی شدید جنگ ہوئی اپنے آپ سے
قدموں پہ آ کے اپنا ہی سر ٹوٹ کر گرا
ہاتھوں کی لرزشوں سے مجھے اس طرح لگا
جیسے مری دعا سے اثر ٹوٹ کر گرا
اتنی داستان ہے میرے زوال کی
میں اُڑ رہا تھا جس سے وہ پر ٹوٹ کر گرا
وہ چاند رات دور چمکتا رہا نوید
بانہوں میں آ کے وقت سحر ٹوٹ کر گرا
اقبال نوید
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *