متّفق ہم اگر نہیں

غزل
متّفق ہم اگر نہیں ہوتے
اتنے شیر و شکر نہیں ہوتے
جاں کی بازی لگانی پڑتی ہے
معرکے یونہی سر نہیں ہوتے
آگے حیران ہوتے رہتے تھے
اب کسی بات پر نہیں ہوتے
ان کو سمجھائیے کہ اپنوں سے
بدگماں اس قدر نہیں ہوتے
کارواں کب کا لٹ چکا ہوتا
ہم اگر باخبر نہیں ہوتے
خوبصورت نہ ہوتی منزل تو
راستے پرخطر نہیں ہوتے
سارے اشعار کس کے اچھّے ہیں
سارے قطرے گہر نہیں ہوتے
جانتے ہیں خودی کا جو مفہوم
خود سے وہ بے خبر نہیں ہوتے
’بزمِ اردو قطر‘ نہیں ہوتی
چند مخلص اگر نہیں ہوتے
آپ کا ساتھ مل گیا ہوتا
اس طرح دربدر نہیں ہوتے
وہ زیادہ ہی پھڑپھڑاتے ہیں
’’جن پرندوں کے پر نہیں ہوتے‘‘
خود غرض جو بھی پیڑ ہیں راغبؔ
اُن پہ میٹھے ثمر نہیں ہوتے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *