عیش و نشاط زندگی چھوڑ دیا جو ہو سو ہو
عقل کے مدرسے سے ہو عشق کے مے کدہ میں آ
جام فنا و بے خودی اب تو پیا جو ہو سو ہو
لاگ کی آگ لگ اٹھی پنبہ طرح سا جل گیا
رخت وجود جان و تن کچھ نہ بچا جو ہو سو ہو
ہجر کی سب مصیبتیں عرض کیں اس کے روبرو
ناز و ادا سے مسکرا کہنے لگا جو ہو سو ہو
دنیا کے نیک و بد سے کام ہم کو نیاز کچھ نہیں
آپ سے جو گزر گیا پھر اسے کیا جو ہو سو ہو
شاہ نیاز احمد بریلوی