آیا نہ پھر ادھر وہ مست شراب ہو کر

آیا نہ پھر ادھر وہ مست شراب ہو کر
کیا پھول مر گئے ہیں اس بن خراب ہو کر
صید زبوں میں میرے یک قطرہ خوں نہ نکلا
خنجر تلے بہا میں خجلت سے آب ہو کر
وعدہ وصال کا ہے کہتے ہیں حشر کے دن
جانا ہوا ولیکن واں سے شتاب ہو کر
دارو پیے نہ ساتھ آ غیروں کے بیشتر یاں
غیرت سے رہ گئے ہیں عاشق کباب ہو کر
یک قطرہ آب اس بن میں نے اگر پیا ہے
نکلا ہے میرؔ پانی وہ خون ناب ہو کر
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *