ترا اے ناتوانی جو کوئی عالم میں رسوا ہے

ترا اے ناتوانی جو کوئی عالم میں رسوا ہے
توانائی کا منھ دیکھا نہیں ان نے کہ کیسا ہے
نیاز ناتواں کیا ناز سرو قد سے بر آوے
مثل مشہور ہے یہ تو کہ دست زور بالا ہے
ابھی اک عمر رونا ہے نہ کھوؤ اشک آنکھو تم
کرو کچھ سوجھتا اپنا تو بہتر ہے کہ دنیا ہے
کیا اے سایۂ دیوار تو نے مجھ سے رو پنہاں
مرے اب دھوپ میں جلنے ہی کا آثار پیدا ہے
بھلے کو اپنے سب دوڑے ہیں یہ اپنا برا چاہے
چلن اس دل کا تم دیکھو تو دنیا سے نرالا ہے
رہو ٹک دور ہی پھرنے دو کوچوں میں مجھے لڑکو
کرو گے تنگ اسے تم اور تو نزدیک صحرا ہے
گلہ سن پیچش کاکل کا مجھ سے یوں لگا کہنے
تو اپنی فصد کر جلدی کہ تجھ کو میرؔ سودا ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *