رات بے چین خیالات کے قبضے میں رہی
دل عجب درد میں محصور رہا
آنکھ میں نیند کی لوری کی جگہ صحرا تھا
آنکھ اشکوں کی ترس جائے تو بڑھ جاتی ہے
ہم ترے دھوپ میں لپٹے ہوئے دکھ میں بہتے
رات بھر کروٹیں لیتے رہے
زخموں کے ہرے بستر پر
اور پھر یہ تو فقط
ایک ہی رات کا احوال ہے ہم بکھرے ہوئے لوگوں کی
ورنہ یہ کرب تو اک دائرہ در دائرہ مدت سے ہمیں لاحق ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)