اداسی تم اسے کہنا

اداسی تم اسے کہنا
اکیلا تُو نہیں دکھ میں
اداسی
تم اسے کہنا
ہوا کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے اور صدا ویران پھرتی ہے
خلا جو ذات کی
ہر چار دیواری کے اندر ہے
کبھی بھی کھل کے رو پایا نہیں ہے
تم اسے کہنا
ترا بچھڑا ہوا
اجڑے ہوئے شہروں میں اکثر بھاگتا پھرتا ہے
اکثر جاگتا پھرتا ہے
سو پایا نہیں ہے
اور۔۔۔ اداسی
تم اسے کہنا
کہ شاموں کی بلکتی گفتگؤیں
کس قدر تکلیف دہ ہیں
کوئی کیا جانے
کسی کو علم کیا
جب رات ڈھلتی ہے
ستارے اپنی اپنی کوکھ سے
یادیں لہو سے
اور سپنے اپنی اپنی لاش سے باہر نکلتے ہیں
تو کتنے جسم جلتے ہیں
دعا کے، آرزوؤں کے وفاؤں کے
اسے کہنا
تمھی دکھ میں نہیں ہو
ہم بھی اپنی راکھ ہاتھوں میں لیے
اور سسکیاں لیتی ہوئی
تنہائیوں کے بال کھولے بین کرتے ہیں
اداسی تم اسے کہنا
تمھی دکھ میں نہیں تنہا
یہاں پر بھی ہوا کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے
خلاء جو ذات کی ہر چار دیواری کے اندر ہے
کبھی بھی بھر نہ پائے گا
یہاں بھی
ہر صدا ویران پھرتی ہے
یہاں بھی
چاہنے والوں کا نادیدہ خدا
جدائی کے کسی بَن میں بھٹکتا پھر رہا ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *