دل کو اس بے مہر سے ہم نے لگایا ہے عبث

دل کو اس بے مہر سے ہم نے لگایا ہے عبث
مہر کی رکھ کر توقع جی کھپایا ہے عبث
دیکھ کر اس کو کھڑے سوجی سے ہم عاشق ہوئے
بیٹھے بیٹھے ناگہاں یہ رنج اٹھایا ہے عبث
اپنی تو بگڑی ہی کوئی کام کی صورت نہیں
ان نے بے لطفی سے منھ اچھا بنایا ہے عبث
جی کے جاتے وہ جو نو خط آتا تو بابت بھی تھی
لطف کر مردے پہ عاشق کے اب آیا ہے عبث
تب تو خانہ باغ سے اپنے نہ پوچھی بات بھی
کیا جو تربت پر مری اب پھول لایا ہے عبث
رات دن سنتا ہے نالے یوں نہیں کہتا کبھو
میرؔ دل آزردہ کو کن نے ستایا ہے عبث
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *