ہوا

ہوا
ہوا
آوارہ اور مسافر
اس نے مجھے چھوا
میرا چہرہ اس کی اپنائیت سے بھر گیا
اس نے مجھے غصے سے دیکھا
میرے پاس سے گزری اور جھلسا دیا
درختوں میں چھپ کر رونے والی
کس دور بیٹھے ہوئے محبوب کی طرف سفر کرنے والی
تمہاری طرف سے کبھی میری طرف نہیں آئی
میں نے اسے بہت دفعہ بلکہ ہر دفعہ تمہاری طرف بھیجا ہے
تمہارے جدائی میں بہائے آنسو میں بھگو بھگو کے
ٹھنڈی، یخ بستہ، نمناک
آندھیوں سے بالکل مختلف
تمہارے غم سے غمناک
میں نے سوچا، ایک مدت سے کھل کے سانس نہیں لیا
دل پہلے سے زیادہ کمزور پڑ گیا ہے۔
ہوا
آوارہ اور مسافر
میں بہت بیمار پڑ گیا ہوں
اور مضمحل ہوں، اور بہت اداس ہوں
مجھے کچھ پڑھ کے پھونک دو
مجھے یقین ہے میں بہت سنبھل جاؤں گا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *