جہاں صرف میرے دکھ نہیں تھے

جہاں صرف میرے دکھ نہیں تھے
ہم جو دکھی ہیں
کہیں نہ کہیں
کسی نہ کسی کے لیے
خود بھی دکھ کا باعث بن جاتے ہیں
اور وہ جو ہمیں
صرف دکھ دینے والے نظر آتے ہیں
کہیں نہ کہیں
اتنے ہی بے بس ،
اتنے ہی مجبور،
اتنے ہی محبوس
اور اتنے ہی محصور ہیں
جتنے کہ ہم
یا شاید ہم سے بھی زیادہ
ہماری نظریں،
ہماری، بینائیاں
صرف ہمارے اپنے اندر جھانک سکتی ہیں
ہمیں صرف وہی نظر آتا ہے
جو ہمارے ساتھ بیتے
میں ایک شہر سے نکلا
اور دوسرے میں داخل ہو گیا
ایک دھند سے دوسری دھند کے حصار میں
ایک دہشت سے دوسری دہشت کے جنگل میں
جہاں صرف میں نہیں تھا
دوسرے بھی تھے
جہاں صرف میرے دکھ نہیں تھے
دوسروں کے بھی تھے
جہاں صرف میری اپنی آہیں،
کراہیں
اور سسکیاں نہیں تھیں
دوسروں کی بھی تھیں
میں ایک چُپ سے نکلا
اور دوسری میں داخل ہو گیا
ایک شہر سے خود کو چھڑوایا
اور دوسرے میں جکڑا گیا
ایک ہجوم سے بچ کے نکلا
دوسرے ہجوم سے بچ کے نکلا
دوسرے ہجوم کے ہاتھ آگیا
ہر طرف ایک مہیب بے چہرگی
اپنی اپنی گمشدگی اور تلاش
ہجوم اور تنہائی
شانہ بشانہ
شناخت اور جستجوئے شناخت
اور خانہ پُری
اور وہم
اور بے اعتباری،
بے یقینی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *