دکھ

دکھ
دکھی ہوئی رات
آنسوؤں کی طرح رخساروں پر ٹکے ہوئے ستاروں کی ٹمٹماہٹ میں
کہیں کہیں سے کالے آسمان کی پٹیاں لپیٹے
درد سے دھڑ دھڑاتے ہوئے سر کو پٹیاں لپیٹے
کراہتی ہے
دکھی ہوئی رات
کسی بیمار کے تلملائے ہوئے زخموں کی طرح
روح سے لپٹی ہوئی چیخوں سے
اپنی آواز بلند کرتی ہے
اور مجھے اپنے پاس بلاتی ہے
اور میرے چاروں طرف پھیل جاتی ہے
تمہارا کہیں کہیں سے ٹوٹا ہوا لہجہ
اور جگہ جگہ سے مسکا ہوا تعلق
اور پھیلی پھیلی ہوئی توجہ
میرے اندر ایک دکھی ہوئی رات ہے
جو میری روح سے لپٹی ہوئی چیخوں سے اپنی آواز بلند کرتی ہے
مجھے اپنے پاس بلاتی ہے
اور میرے اندر ہی اندر
چاروں طرف پھیل جاتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *