بات میں زہر گھولتا ہوا تُو
آج بس غور سے سنا میں نے
میرے لہجے میں بولتا ہوا تُو
میں پروتا ہوا تجھے ان میں
میرے الفاظ تولتا ہوا تُو
آج پھر سے مجھے نظر آیا
رنگ اُداسی میں گھولتا ہوا تُو
پھر وہی تھامتا ہوا اِک میں
پھر مسلسل ہے ڈولتا ہوا تُو
دے کے دستک میں کاش پھر دیکھوں
در کو چپ چاپ کھولتا ہوا تُو
زین شکیل