روح کو ہجر کے کانٹوں سے گزارے تو سہی

روح کو ہجر کے کانٹوں سے گزارے تو سہی
وہ تو خود چاہتا ہے کوئی پکارے تو سہی
پھر یہ دیکھے کہ بھلا کون ہے کتنا گہرا
دل کوئی گہرے سمندر میں اتارے تو سہی
وہ مری طرح ریاضت تو کرے مرنے کی
وہ مری طرح تمناؤں کو مارے تو سہی
پھر میں اک ہنستی ہوئی صبح اسے لا کر دوں
رات وہ میرے لیے رو کے گزارے تو سہی
زندگی جنگ ہے، اس جنگ میں جیتے تو سہی
زندگی کھیل ہے، اس کھیل میں ہارے تو سہی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *