سکوت

سکوت
میں شہر کے ایک ایک در پر گیا
ایک ایک شخص کی منّت کی
اور اسے ہر طرح سے سمجھایا
یہاں تک کہ کتاب کا واسطہ دیا
اور کہا کہ خدا کے لئے بولو
کچھ نہ کچھ تو بولو
ورنہ خاموشی سب کچھ نگل لے گی
جس نے بھی میری بات سنی
تضحیک آمیز انداز میں ہنس دیا
مجھے دکھ تو بہت ہوا
لیکن ساتھ خوشی بھی ہوئی
کہ چلو کسی نہ کسی طرح سکوت تو ٹوٹا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *