اک شام ہمارے نام

اک شام ہمارے نام کرو
آغاز کرو، انجام کرو
ان آنکھوں کو پیغام کرو
اک شام ہمارے نام کرو
آنکھوں سے پرے اک عالم ہے
سانسوں سے پرے اک وحشت ہے
خوابوں سےپرے کچھ بھی تو نہیں
اقرار جہاں پر ہونا ہو
انکار کہاں ہو سکتا ہے
یہ ریت ہے ایک محبت کی
آزار ہیں جو دنیا بھر کے
اک دکھ میں چھپائے بیٹھے ہیں
کچھ لوگ اداسی بُنتے ہیں
ہم عرش ریاضت کر کر کے
ہر ابر کا رستہ جان گئے
اب آنکھ برستی رہتی ہے
ہم درد ریاضت کرتے تھے
ہر دکھتی رگ کو دیکھ لیا
اب ضبط پریشاں رہتا ہے
ہم ہجر ریاضت کر بیٹھے
اب خود سے روز بچھڑتے ہیں
اب وصل بھی طعنے دیتا ہے
ہم دشت ہوئے، ہم خاک ہوئے
ہم ریت کی اک پوشاک ہوئے
اب روز بکھرتے رہتے ہیں
سب جذبوں کو بے نام کرو
ان آنکھوں میں آرام کرو
اک شام ہمارے نام کرو
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *