لمحے امتحانوں کے

لمحے امتحانوں کے
تیر ہیں کمانوں کے
بستیاں خداؤں کی
رنج سائبانوں کے
اس طرح ہی ہوتے ہیں
طور لامکانوں کے
کشتیاں نصیبوں کی
روگ بادبانوں کے
درمیان آ ٹھہرے
فاصلے زمانوں کے
چال بے پروں جیسی
خواب آسمانوں کے
رنگ اور ہوتے ہیں
مطمئن زمانوں کے
قافلے گزرتے ہیں
غمزدہ جہانوں کے
درد کے کنارے پر
شور شادیانوں کے
مٹ گئے خموشی سے
نقش داستانوں کے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *