گرسنہ

گرسنہ
بلبلاتی بھوک کی زنجیر میں
ننگا بدن
اور جنس کی عریانیوں میں
دل کا کوئی چور دروازہ کھلا
اور تمناؤں کے بہرے پن میں
سچل روح کے رخسار کا غازہ کھلا
ایک اک کر کے ہر اندازہ کھلا
تم ریت پر صورت بناؤ گے
تو کیا کوئی صدا دے گا؟
ہواؤں پر اگر تم دھول اڑاؤ گے
تو کیا کوئی دعا دے گا؟
یہاں کوئی بھی اپنی بھول سے باہر نکلنے کے لیے طاقت نہیں رکھتا
تمہارے سامنے تم کو بھلا دے گا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *