میں خبیث روحوں کی حد میں ہوں

میں خبیث روحوں کی حد میں ہوں 
مری جیب میں ہے شراب خانہ پڑا ہوا
کوئی قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے غلیظ سا مرے پیٹ پر
مرے حلق میں کوئی قَے اُمڈتی ہے چھیدتی ہوئی بُو لیے
مرا متلیوں میں نہا گیا ہے خیال بھی
کئی کیچڑوں بھری سیاہ رنگ کراہتیں
مری ناک سے مرے دل میں آ کے اتر گئیں
میں پلٹ کے بھاگا زمین میں
میں پلٹ کے بھاگا زمین میں اسے چیرتا
بڑی بھُر بھُری سی زمین ہے
بڑی دلدلی
مرا سر جواب کسی گیلی مٹی کی اینٹ ہے
مرا جسم جسم نہیں رہا
کسی نرم گل کا ہے لوتھڑا
مجھے روکیے
مجھے ٹوکیے
مجھے ماریے
مری جیب میں ہے شراب خانہ پڑا ہوا
میں غلیظ قطروں کی زد میں ہوں
میں خبیث روحوں کی حد میں ہوں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *