نیند پھر روٹھ گئی

نیند پھر روٹھ گئی
آج پھر رات کہاں جا نکلی
نیند پھر روٹھ گئی
آ گرا ذہن میں درد کوئی
زندگی
دکھ کی ریاضت بھی مکمل نہیں ہونے دیتی
کیونکہ تکمیل میں سکھ ملتا ہے
ذہن خالی ہی نہیں ہو پاتا
پچھلی ویرانی سمٹ پاتی نہیں
دوسری آجاتی ہے
پہلا غم جا کے کوئی دوسرا لے آتا ہے
روگ تا دیر سلگتے ہیں پپوٹوں کے تلے
جانے یکطرفہ مصائب کی کہانی کیا ہے
کون سے شہروں سے آتے ہیں ہمارے اوپر
کن ستاروں سے بھلا ٹوٹتے ہیں
کیوں ابلتے ہوئے لاوے کی طرح پھوٹتے ہیں
درد سے درد کے ناطے کی طرح سوچ سے سوچ جڑی ہے
دیکھو
آ گرا ذہن پہ پھر درد کوئی
نیند پھر روٹھ گئی
بات کہاں جا نکلی
رات کہاں جا نکلی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *