نمائش پرده دارِ طرز بیدادِ تغافل ہے

نمائش پرده دارِ طرز بیدادِ تغافل ہے
نمائش پرده دارِ طرز بیدادِ تغافل ہے
تسلّی جانِ بلبل کے لئے خندیدنِ گل ہے
نمودِ عالَمِ اسباب کیا ہے؟ لفظِ بے معنی
کہ ہستی کی طرح مجھ کو عدم میں بھی تامّل ہے
نہ رکھ پابندِ استغنا کو قیدی رسمِ عالم کا
ترا دستِ دعا بھی رخنہ اندازِ توکّل ہے
نہ چھوڑا قید میں بھی وحشیوں کو یادِ گلشن نے
یہ چاکِ پیرہن گویا جوابِ خندہ گل ہے
ابھی دیوانگی کا راز کہہ سکتے ہیں ناصح سے
ابھی کچھ وقت ہے غالبؔ ابھی فصلِ گل و مُل ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *