اتنا کہا نہ ہم سے تم نے کبھو کہ آؤ

اتنا کہا نہ ہم سے تم نے کبھو کہ آؤ
کاہے کو یوں کھڑے ہو وحشی سے بیٹھ جاؤ
یہ چاند کے سے ٹکڑے چھپتے نہیں چھپائے
ہر چند اپنے منھ کو برقع میں تم چھپاؤ
دوچار تیر یارو اس سے بھلی ہے دوری
تم کھینچ کھینچ مجھ کو اس پلے پر نہ لاؤ
ہو شرم آنکھ میں تو بھاری جہاز سے ہے
مت کر کے شوخ چشمی آشوب سا اٹھاؤ
اب آتے ہو تو آؤ ہر لحظہ جی گھٹے ہے
پھر لطف کیا جو آ کر آدھا بھی تم نہ پاؤ
تھی سحر یا نگہ تھی ہم آپ کو تھے بھولے
اس جادوگر کو یارو پھر بھی تنک دکھاؤ
بارے گئے سو گذرے جی بھر بھر آتے ہیں کیا
آئندہ میرؔ صاحب دل مت کہیں لگاؤ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *