دوراہا

دوراہا
اس نے دیکھا
اپنے آپ سے نکل کے
سرابی سے نکل کے
یہ دنیا اور بھی زیادہ کٹھن تھی
وہ تھوڑا رُکا
تھوڑا سستایا
اور ذرا کمزور پڑا
تو راستوں کی سازش کا شکار ہو گیا
وہ سستانے کے لئے جہاں بیٹھا تھا
وہ دوراہا آپ ہی مسکرادیا
دونوں طرف سے آنے والے راستے، کنگھوں ہی کنگھیوں میں
کبھی اسے دیکھتے
اور کبھی ایک دوسرے کو
ایک دوسرے کو دیکھتے
تو ایک منچلی سی مسکراہٹ
زورازوری ان کے ہونٹوں پہ مچلنے لگ جاتی
اور وہ اسے چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے
انجان نظر آنے کی کوشش بھی کرتے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *