یک طرفہ سوالات کے دھارے کی طرح تھا

یک طرفہ سوالات کے دھارے کی طرح تھا
اک شخص مسائل کے اشارے کی طرح تھا
بچھڑا تو یہ سمجھے کہ وہ شرمیلا کم آمیز
اس بھیڑ میں تنہا ہی سہارے کی طرح تھا
صحراؤں کے دل میں تھا کسی پیڑ کی صورت
دریاؤں کے سینوں پہ کنارے کی طرح تھا
وہ لمس بھی ایسا تھا جسے چھو کے نہ دیکھا
آنکھوں سے کہیں دور نظارے کی طرح تھا
فرحت کو کسی طور سمجھنا تھا نہ مشکل
اجڑے ہوئے لوگوں کے ستارے کی طرح تھا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *