گھر سے گھر تک کا راستہ نہ ملا

گھر سے گھر تک کا راستہ نہ ملا
کوئی بھی خود میں جھانکتا نہ ملا

سب کے ہم راہ سب کے سائے تھے
شہر میں کوئی دیوتا نہ ملا

کتنے ہونٹوں کا لمس یاد رہے
ایک بھی نقش دیر پا نہ ملا

روشنی کے سفیر لوٹ گئے
شہر در شہر رت جگا نہ ملا

تنگ تھا ذات کا حصار بہت
کوئی رستہ فرار کا نہ ملا

کتنے آنسو نچوڑ کر دیکھے
کھو گیا تھا جو قہقہہ نہ ملا

ہم ہی تھے اپنے آس پاس نظر
راہ میں کوئی دوسرا نہ ملا

پریم کمار نظر

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *