ہم کو تو خیر پہنچنا تھا جہاں تک پہنچے

ہم کو تو خیر پہنچنا تھا جہاں تک پہنچے
جو ہمیں روک رہے تھے وہ کہاں تک پہنچے

فصل گل تک رہے یا دور خزاں تک پہنچے
بات جب نکلی ہے منہ سے تو جہاں تک پہنچے

میرے اشعار میں ہے حسن معانی کی تلاش
لوگ اب تک نہ مرے درد نہاں تک پہنچے

مجھ کو رہنے دو مرے درد کی لذت میں خموش
یہ وہ افسانہ نہیں ہے جو زباں تک پہنچے

تیری زلفوں کی گھنی چھاؤں کسے ملتی ہے
کس کی تقدیر رسا ہے کہ وہاں تک پہنچے

منزل دار و رسن بھی ہے رخ و زلف کے بعد
دیکھیے شوق ہمیں لے کے کہاں تک پہنچے

ترجماں اپنا بنایا ہے مجھے رندوں نے
کاش آواز مری پیر مغاں تک پہنچے

آپ کے مشغلۂ شعر و سخن سے عاجز
کام تو کچھ نہ ہوا نام جہاں تک پہنچے

کلیم عاجز

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *