ساون کی شامیں صحرا کے باسی

ساون کی شامیں صحرا کے باسی
کیسے سہیں گے اتنی اداسی
راتیں اکیلی ڈالیں پہیلی
ہنس دے زمانہ رو دے سہیلی
سانسیں ادھاری، دھڑکن ہے پیاسی
اجڑے بسیرے دکھ نے ہیں گھیرے
چپ نے لگائے رستوں میں ڈیرے
مر جائے جیسے کوئی اللہ راسی
آنکھیں ہماری سپنے کسی کے
سکھ کب ہوئے ہیں اپنے کسی کے
جندڑی ہماری ساجن کی داسی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *