تمھیں میں یاد کروں اور بے حساب کروں

تمھیں میں یاد کروں اور بے حساب کروں
تمھارے نام نیا پھر سے انتساب کروں
یہ آئینہ بھی تری ہی جھلک دکھاتا ہے
میں آئینے سے بڑی دیر تک حجاب کروں
اب ایک ذکر پہ آنکھیں بھی نم نہ ہوں میری
حضور! آپ کہیں کتنا اجتناب کروں
وہ مجھ کو دیکھ کے دوڑا ہوا چلا آئے
میں اپنے آپ کو کچھ اِس طرح سراب کروں
عجیب مشغلہ اپنا لیا ہے اب میں نے
کہ آپ اپنی اداسی کا احتساب کروں
یہ تیری یاد بھی کس کس طرح ستاتی ہے
درست کام کروں پھر اُسے خراب کروں
ربابؔ ہجر میں خواہش عجیب جاگی ہے
میں خود کو نیند کروں اور اُس کو خواب کروں
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *