دل میں اور دنیا میں اب نہیں ملیں گے ہم

دل میں اور دنیا میں اب نہیں ملیں گے ہم
وقت کے ہمیشہ میں اب نہیں ملیں گے ہم
اپنی بے تقاضائی اپنی وضع ٹھیری ہے
حالِ پُر تقاضا میں اب نہیں ملیں گے ہم
بُود یا نبود اپنی اِک گمان تھی اپنا
یعنی ’’یا‘‘ میں اور ’’یا‘‘ میں اب نہیں ملیں گے ہم
اب نہیں ملیں گے ہم کوچۂ تمنا میں
کوچۂ تمنا میں اب نہیں ملیں گے ہم
ایک خواب تھا دیروز اک فُسون تھا امروز
اور کسی بھی فردا میں اب نہیں ملیں گے ہم
اب جنون ہے اپنا گوشہ گیرِ تنہائی
سو دیار و صحرا میں اب نہیں ملیں گے ہم
حرف زَن نہ ہوں گے لب جاوداں خموشی میں
ہاں کسی بھی معنی میں اب نہیں ملیں گے ہم
زندگی شتاباں ہے شہرِ خفتہ کی جانب
شہرِ شور و غوغا میں اب نہیں ملیں گے ہم
ایک حالِ ب حالی دل کا طَور ٹھہرا ہے
حالِ حالت افزا میں اب نہیں ملیں گے ہم
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *