ہاں تو کیا کہہ رہی

ہاں تو کیا کہہ رہی تھی۔۔؟ کہو!
ہاں تو کیا کہہ رہی تھی۔۔؟ کہو!
کہہ رہی تھی کہ جیون اداسی کے بے رحم نرغے میں آیا ہوا ہے
شبیں ناگ بن بن کے ڈستی ہیں رگ رگ میں بھرتی ہیں زہرِ جدائی
قسم سے بڑا پُرغضب، ہولناک و عجب مضطرب حال ہے
(میں نے ڈبیا سے سگریٹ نکالی جلاتے ہوئے یہ کہا۔۔۔۔ بولتی جاؤ پھر۔۔؟)
کہہ رہی تھی کہ دن کو عداوت ہے مجھ سے
مری دوپہر بھی خفا،
شام میرے مخالف کھڑی،
میں اکیلی، پریشان، بیچاری، کمزور۔۔۔
اک تیرے میثاق کے آسرے سانس لیتی ہوئی اور کتنا لڑوں۔۔۔؟
(میں نے سگریٹ کا لمبا سا کش لے کے اُس سے کہا۔۔۔ بولتی جاؤ پھر؟)
کہہ رہی تھی ۔۔۔ بہت چیختی اور چلاتی رہتی ہوں میں آسمانوں کی جانب جو دیکھوں کبھی پر کوئی میری آواز سنتا نہیں
میں بلاتی ہوں وہ بولتا ہی نہیں
مہربانی کی چادر میں لیتا نہیں
چین کا کوئی در کھولتا ہی نہیں
میں چھپاتی ہوں سب سے تمہیں
پھر بھی سب جانے کیوں باخبر،
دل بھی کیسا یہ خوف و خطر کا ہے گھر
اور کھلتا نہیں، پوری ہوتی ہیں جو، ان مُرادوں کا در۔۔
(تیسرا کش لیا اور میں نے دھویں کو ہوا میں اڑاتے ہوئے ۔
راکھ جھاڑی اور اس سے کہا۔۔
ہاں تو کیا کہہ رہی تھی کہو!)
کہہ رہی کہ میں اب کسی راہ پر بھی چلوں
راستہ منہ چڑاتا ہے اور منزلیں چاہتی ہی نہیں ہیں کہ پہنچوں کبھی۔۔۔
(میں نے پھر کش لیا)
کہہ رہی تھی مجھے رتجگوں کی قسم
تم نہیں بھولتے
جانتی ہوں کہ میں بے ثمر پیڑ کی جستجو میں بھٹکنے لگی ہوں
مگر پھر بھی سایہ تو ہے
چاہے جیسا بھی ہے۔۔۔
(میں نے ہنستے ہوئے راکھ جھاڑی ۔۔۔ اور اک کش لیا.. پھر کہا
اچھا آگے کہو۔۔)
کہہ رہی تھی کہ بیمار آنکھیں
وفاؤں کی تیمار داری کریں کس طرح
تم خفا ۔۔۔
تم مری زیست کے سب حوالوں سے کاٹے گئے
یا کہ خود کٹ گئے۔۔۔
میں مقدر سے شکوہ کروں تو کروں کس طرح
میں بھی مجبور و بے بس
میں اجڑی ہوئی شام کا ایک منظر
میں الجھے ہوئے فلسفے کی طرح
لامکانی کی منزل سے نا آشنا
بے قراری کی تربت
اذیت کا گہوارہِ بے سبب
اور آسودگی کے فسانوں کی اک من گھڑت داستاں
میں تمہاری محبت کی قیدن
عقیدہِ عشق و جنوں کی مقلد
اداسی کے لاڈوں پلی
میں غموں کی پسندیدہ
اور دکھ کی باندی
یہ میں۔۔۔ ایک تم سے جُدا۔۔۔
اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( پھر میں بولا، رکو!
میں نے پھر راکھ جھاڑی ،
تو سگریٹ میں بس ایک اور ایک آدھا ہی کش رہ گیا تھا
سو مسرور ہو کے کیا بند آنکھوں کو اور آخری کش لگا کر دھواں پھر ہوا میں اڑایا۔۔۔
اڑاتے ہوئے ،
میں نے سگریٹ بجھائی،
بجھاتے ہوئے یہ کہا،
ہاں تو کیا کہہ رہی تھی؟؟
(تو گہری خموشی تھی پھیلی ہوئی)
میں نے چہرہ اٹھایا تو میرے سوا اب وہاں اور کوئی نہیں تھا
سو پھر وہ بنا کوئی شکوہ شکایت کیے
میرے سگریٹ بجھانے کے دوران ہی جا چکی تھی)
تو میں بے وفا،
اپنی پیشانی پر تیوری کے کئی بل چڑھاتے ہوئے ،
سر جھٹکتے ہوئے ڑبڑایا
” بہت ہی برا آج دن ہے قسم سے،
کوئی ٹھیک سے آج سگریٹ بھی پینے نہیں دے رہا”
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *