مرا سَر اُتر ہی نہیں رہا ہے صلیب سے

مرا سَر اُتر ہی نہیں رہا ہے صلیب سے
کوئی نیم صاف قدیم طرز کا حوض ہے
جہاں لاش تیر رہی ہے کوئی سفید سی
نہ تو سَر ہے ساتھ وجود کے نہ ہی پیر ہیں
مگر ایک بات کہ سانس جاری ہے دیر سے
کوئی کاٹ کاٹ کے رکھتا جاتا ہے ٹکڑا ٹکڑا بدن
لفافوں میں ڈال کے
کہیں دور سر میں عجیب درد کے سائے ہیں
بڑے ہلکے ہلکے گھُٹے گھُٹے سے
مُہیب سے
مرے ہاتھ سُن ہیں نگاہ پھیلی ہوئی ہے لاش کے چار سو
مرا دھیان اس کے بدن سے ہٹ ہی نہیں رہا
مرا سر اتر ہی نہیں رہا ہے صلیب سے
یہ صلیب بھی کوئی نیم صاف قدیم طرز کا حوض ہے
مری سانس پانی میں گھل رہی ہے اِدھر اُدھر
مرا رنگ پانی میں ڈوبتا ہے اُبھر اُبھر
مرا عکس مجھ کو پکارتا ہے
میں دیکھتا ہوں قریب سے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *