ایسی باتیں کہاں سے لاتے

ایسی باتیں کہاں سے لاتے ہو
اْس نے پوچھا کہ ان ستاروں کو
کون تکتا ہے رات دیر تلک
میں یہ بولا کہ ایک شاعر ہے
وہ یہ بولی کہ زین، تم بھی ناں!
ان ستاروں سے کیا ملا تم کو؟
مجھ پہ کیوں شاعری نہیں کرتے؟
میں یہ بولا کہ ان ستاروں سے
ایک گہرا مرا تعلق ہے
میری آنکھوں میں جگمگاتے ہیں
پھر وہ حیران ہو کے کہتی ہے
تیری چھوٹی سی آنکھ نے کیسے
بھر دیا آسماں ستاروں سے
میں یہ بولا کہ تم ستاروں کی
بات کرتی ہو چاند بھی اکثر
آ ٹھہرتا ہے میری آنکھوں میں
اس پہ بولی کہ یہ بتاؤ تم
ایسی باتیں کہاں سے لاتے ہو
دسترس میں ہیں چاند تارے بھی؟
اس کے معصوم سے سوالوں پر
دھیرے دھیرے سے مسکراتا ہوں
اور چپ چاپ دیکھتا ہوں اُسے
پوچھتی ہے کہ بارشوں سے تمہیں
کس لئے اس قدر محبت ہے
کیوں اُداسی میں رنگ بھرتے ہو؟
میں یہ بولا کہ ایک بارش ہی
میری ہمدرد ہے زمانے میں
میری آنکھوں کی لاج رکھتی ہے
میں جو آنسو کسی کے جب دیکھوں
رات بھر نیند ہی نہیں آتی
وہ یہ معصومیت سے کہتی ہے
درد کے پار کے مناظر کچھ
روح پر بوجھ ڈال دیتے ہیں
میں نے اُس کو یہی جواب دیا
وہ یہ بولی کہ خواب میں اکثر
تم کو دیکھوں تو جاگ اُٹھتی ہوں
پھر گزرتی ہے رات رو رو کر
میں نے سوئے فلک نگاہیں کیں
اور ٹھنڈی سی ایک آہ بھری
اور پھر بات کو بدل ڈالا
وہ یہ بولی کہ میرے بعد بھی تم
کیا مجھے اس طرح سے چاہو گے؟
مجھ کو ایسا تو کچھ نہیں لگتا!
میں یہ بولا کہ مجھ سے پہلے تم
اور پھر میرے بعد بھی تم ہی
اور پھر میں تمہارے بعد کہاں؟
وہ یہ بولی کہ سوچ کی کٹیا
تجھ کو سوچوں تو خون روتی ہے
کیوں مجھے یاد آتے رہتے ہو؟
میں یہ بے چارگی سے کہتا ہوں
اس طرح سے نہ خود کو کھو دینا
درد کو کر لیا کرو تسلیم
وہ یہ بولی کہ میرے سائے میں
تیرا سایہ دکھائی دیتا ہے
کیوں اندھیروں میں پھر اکیلی ہوں؟
میں یہ بولا کہ وہم بھی اکثر
یوں ہی چہرے بدل کے ملتا ہے
مجھ کو محسوس کیوں نہیں کرتیں؟
وہ یہ بولی کہ آج کنگن نے
تیرے بارے میں کچھ نہیں پوچھا
میں نے زیور سبھی اُتار دیے
میں یہ بولا کہ پھول کا گجرا
کس لیے آج میں نے بھیجا تھا
کیا ضروری تھا بولتا کنگن؟
مجھ سے کہتی ہے آج میں خوش ہوں
سارا گھر ہی سجا لیا میں نے
منتظر تھی ناں، اور کیا کرتی؟
میں یہ بولا کہ ٹھیک ہے لیکن
کب تلک یوں مجھے ملو گی تم؟
کب تلک یوں ہی خوش رہو گی تم؟
وہ یہ بولی جھڑی ہے ساون کی
آج تو بھیگ بھیگ جاؤں گی
تم کبھی بارشوں میں بھیگے ہو؟
میں یہ بولا کہ روز راتوں کو!
سارے احساس بھیگ جاتے ہیں
ابر برسے یا آنکھ سے برسے
وہ یہ بولی کہ کوئی بات کرو
چاہتوں کے نصاب کے بارے
دوریوں کے عذاب کے بارے
اس پہ چپ چاپ دیکھ کر اُس کو
میں فقط سوچتا ہی رہتا ہوں
کون سی بات کب کروں اس سے
وہ یہ بولی کہ درد سے تم کو
بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا
کس لئے پھر اُداس رہتے ہو
میں یہ بولا کہ بولتا کب ہوں
درد بس آ کے بیٹھ جاتا ہے
اور سُنتا ہوں دیر تک اُس کو
وہ یہ بولی کہ بولتے رہنا
مجھ کو اتنا عجیب لگتا ہے
تم کوئی بات کیوں نہیں کرتے
میں یہ بولا کہ لب ہلا دینا
کیا یہی بولنے سے مطلب ہے
تم سنو، گر تمہیں سنائی دے!
تم مجھے کیوں سمجھ نہیں آتے؟
جاؤ اب بولتی نہیں میں بھی
ہو کے وحشت زدہ وہ کہتی ہے
پھر وہ چہرے کو موڑ لیتی ہے
اور یوں دور تک مرے اندر
آرزو بین کرنے لگتی ہے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *