رخصت کی کسک رہی ہے اب تک

رخصت کی کسک رہی ہے اب تک
اک شام سلگ رہی ہے اب تک
شب کس نے یہاں قدم رکھا تھا
دہلیز چمک رہی ہے اب تک
ماتھے پہ وہ لب تھے ثانیہ بھر
اور روح مہک رہی ہے اب تک
دیکھا تھا یہ کس نظر سے اس نے
تصویر دمک رہی ہے اب تک
جو بات کہی نہیں تھی اس سے
لہجے میں کھنک رہی ہے اب تک
کب کا ہوا خالی ساغر شام
مے ہے کہ چھلک رہی ہے اب تک
بن عکس یہ کیسی جگمگاہٹ
شیشے سے جھلک رہی ہے اب تک
وہ چشم کہ باغ آشنا ہے
جنگل میں بھٹک رہی ہے اب تک
دونوں کے لبوں تک آتے آتے
اک بات اٹک رہی ہے اب تک
بارش کی ہے چاہ شاخ کو اور
بادل سے جھجک رہی ہے اب تک
شانوں پہ نہیں وہ ہاتھ لیکن
چادر سی سرک رہی ہے اب تک ​
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *