جمع ہوتے نہیں حواس کہیں

جمع ہوتے نہیں حواس کہیں
جائیں یاں سے جو ہم اداس کہیں
دل کی دو اشک سے نہ نکلی بھڑاس
اوسوں بجھتی نہیں ہے پیاس کہیں
باؤ خوشبو ہے آئی ہے واں سے
کوئی چھپتی ہے گل کی باس کہیں
اس جنوں میں کہیں ہے سر پر خاک
ٹکڑے ہو کر گرا لباس کہیں
گرد سر یار کے پھریں پہروں
ہم جو ہوں اس کے آس پاس کہیں
سب جگہ لوگ حق و ناحق پر
نہ ملا حیف حق شناس کہیں
ہر طرف ہیں امیدوار یار
اس سے کوئی نہیں نراس کہیں
عشق کا محو دشت شیریں ہوں
جان کا بھی نہیں ہراس کہیں
عرش تک تو خیال پہنچے میرؔ
وہم پھر ہے کہیں قیاس کہیں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *