گوش ہر یک کا اسی کی اور ہے

گوش ہر یک کا اسی کی اور ہے
کیا قیامت کا قیامت شور ہے
پوچھنا اس ناتواں کا خوب تھا
پر نہ پوچھا ان نے وہ بھی زور ہے
صندل درد سر مہر و وفا
عاقبت دیکھا تو خاک گور ہے
رشتۂ الفت تو نازک ہے بہت
کیا سمجھ کر خلق اس پر ڈور ہے
ناکسی سے میرؔ اس کوچے کے بیچ
اس طرح نکلے ہے جیسے چور ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *