جو طے ہوئے تھے کبھی کیف بیخودی کے لیے

جو طے ہوئے تھے کبھی کیف بیخودی کے لیے
فغاں! کہ اب وہ مراحل ہیں آ گہی کے لیے
ہوا تھا جس سے شعورِ شباب کا آغاز
ہے اب بھی میری محبت فقط اسی کے لیے
اتر چکی ہے مری روح میں کسی کی نگاہ
تڑپ رہی ہے مری زندگی کسی کے لیے
جنون عشق نے اپنا لہو نچوڑا ہے
بہار حسن کی خود کام دلکشی کے لیے
فضائے نو! سحرِ نو سنوارنے والے
تڑپ رہے ہیں اندھیروں میں روشنی کے لیے
حرم کو ان کی جبینوں پہ ناز ہے کیا کیا
جو بت شکن بھی بنے ہیں تو بت گری کے لیے
حریم عیش و مسرت کے ناز پروردہ
ستم! کہ ہیں مری ناکام زندگی کے لیے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *