وحشی دل کا شہر سجانا پڑتا ہے

وحشی دل کا شہر سجانا پڑتا ہے
رسوائی کا جشن منانا پڑتا ہے
تاریکی کے خوف سے اپنے اندر بھی
کوئی نہ کوئی دیپ جلانا پڑتا ہے
چل پڑتا ہوں شام ڈھلے تیرے اُس پار
رستے میں اک وقت سہانا پڑتا ہے
جیون کے اس کھیل میں جانے کتنی بار
اپنے آپ سے دھوکا کھانا پڑتا ہے
تیرے میرے بیچ نہیں ہیں دیواریں
تیرے میرے بیچ زمانہ پڑتا ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *