بات شکوے کی ہم نے گاہ نہ کی

بات شکوے کی ہم نے گاہ نہ کی
بلکہ دی جان اور آہ نہ کی
گل و آئینہ ماہ و خور کن نے
چشم اس چہرے پر سیاہ نہ کی
کعبے سو بار وہ گیا تو کیا
جس نے یاں ایک دل میں راہ نہ کی
واہ اے عشق اس ستمگر نے
جاں فشانی پہ میری واہ نہ کی
جس سے تھی چشم ہم کو کیا کیا میرؔ
اس طرف ان نے اک نگاہ نہ کی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *